جاپانی ائیر پورٹ کے ، خوش گوار ضابطے میں تھوڑا ہی وقت صرف ہوا۔ ائیر پورٹ کے امیگریشن کے عملے کے ،ہر چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ لگتا ہے مسکراہٹ ان کی تربیت کا حصہ ہوگی۔ پاکستانی ائیر پورٹ کا عملہ تو اپنی مسکراہٹ گھر ہی چھوڑ کر آتاہے۔ شاید مسکراہٹ کا وزن اٹھا نا مشکل ہے۔ پی آئی اے کے عملے نے جہاز میں ایک کارڈ/سوال نامہ دیا تھا جس کو مکمل کرکے جاپانی امیگریشن کے عملے کو دے دیا ۔ ابھی خوبصورت ائیر پورٹ کو چھوڑنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ لیکن امیگریشن سے فارغ ہونے کے بعد، باہر نکلنا لازم تھا اپنا سامان وصول کیا- دیکھ حیرانگی ہوئی ہمارے بیگ کو چاپانی ٹاکی مار رہے تھَے۔ اس کی دو وجہ ہی ہوسکتی ہیں یا تو ہمارے بیگوں پر لگے جراثیم اور مٹی اپنے ملک میں جانے سے روک رہے تھے یا پھر میزبانی۔ بس اللہ ہی جانے۔ باہر ایک جدید قسم کی بس کھڑی تھی۔ فیاض الدین صاحب، جاپانی ڈرائیورکے ساتھ انتظار کی کیفیت میں ٹھنڈے ہو رہے تھے۔ میرے دل میں آئی یہ بندہ ابھی روٹی شوٹی کا پوچھے گا۔ ہارون آباد سے لاہور، پھر اسلام آباد پھر فلائٹ کا انتظار ،رستے میں جہاز کی روٹی، پھر ایک مرتبہ جہاز کی روٹی جس کو میرے جسیے دیسی بندے کے لئے کھانا یا روٹی کہنا مشکل تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال اب تو بھوک اور تھکاوٹ کا مقابلہ ہو رہا تھا۔
سب مسافروں کے بیٹھ جانے کے بعد بس چلنےکا اتنظار ہونے لگا۔ بس کے مددگار سٹاف نے ہماری طرف دیکھا اور کچھ کہا۔ پھر ہمارے ایکشن کا انتظآر کرنے لگا۔ لیکن ہمیں تو سمجھ کچھ نا آئی۔ پھر محترم فیاض صاحب نے بتایا سیٹ بلٹ باندھ لیں۔ ایک دو احباب نے کھڑے ہو ، فیاض صاحب کو بتایا کہ ڈرائیور نے سیٹ بیلٹ باندھ لیا ہے۔۔ لیکن ڈرائیور گاڑی چلانے کو تیار نہیں تھا۔ پھر کھڑے ہوکر فیاض صاحب کہنے لگے” جاپان میں بس کے ہر مسافر کو سیٹ بیلٹ باندھنا لازمی ہے” آپ سب باندھ لیں وگرنہ گاڑی نہیں چلے گی۔ سب محترم اساتذہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ہر سیٹ کے ساتھ بیلٹ موجود ہے۔ ہم ایک دوسرے کی طرف ایسے دیکھنے لگے۔ جسے کبھی چھٹی کی گھنٹی،وقت سے پہلے بج جائے تو۔۔۔دیکھتے ہیں۔ سیٹ بلیٹ باندھنے کے بعد گاڑی نے چلنا شروع کر دیا۔ گاڑی کی ہر سیٹ کے ساتھ موبائل چارجر موجود تھا۔ بیٹری اپنی کمزور ترین سطح پر آ چکی تھی۔ اس لئے چارچنگ پر لگا دیا۔
خوشخبری سن کر جی خوش ہو گیا۔ بلکہ جی نے معدےکو بھی بتا دیا۔ معدے تم تیار ہو جاوٗ ۔ کھانے کے لئے کھانا۔۔۔۔۔۔ ملنے والا ہے۔