بس گھومتی گماتی آخر کار ہوٹل کے پاس پہچ کر رک گئی۔ ہوٹل میں داخل ہوئے تو حقیقت میں باچھیں کھل گئ۔ کھانوں کی خوشبو سے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ دیسی کھانوں کا مرکز ہے۔ ہاتھ منہ دھوکر زمین پر بچھی سیٹیوں پر برجمان ہوگئے۔
کچھ میز کرسی بھی موجود تھے چند دوستوں نے وہاں بیٹھنا مناسب سمجھا۔
ریستوران کی دیوارییں محتلف قسم کے دستخط اور جملوں سے سجی ہوَئی تھی۔یہ پوچھنے سے قاصر رہے کہ یہ کسی جدید مشینری کی کاروائی ہے یا یہاں کھانا کھانے والے ہاتھ صاف؟ مطلب لکھ کر جاتے ہیں۔
میرے پاس بیٹھے کراچی کے دوست آصف صدیقی صاحب نے فرمایا خبیب صاحب اگر جاپان میں آکر بھی سٹک سے کھانا نہیں تو پھر کیا فائدہ۔۔۔میں آصف صاحب کی بات سن کر جذبات میں آ گیا۔ سوٹیاں پکڑیں اور ان سے سویاں پکڑنے کی کوشش شروع کر دی۔ چند بار کی کوشش کے بعد، دہم جماعت کے مسلئے یاد آ گئے ان کو سمجھنا ذرا ہی مشکل ہی تھا اس لئے سینہ بسینہ روایت کو مدںظر رکھ کر مسئلہ کی بجائے کچھ اورہی یاد کر لیں تو بہتر ہو وگرنہ نمبر کم کٹ جائے گے کہ فارمولے پر عمل کیا۔ اس لئے ڈنڈیاں چھوڑی اور چمج اور انگلیوں سے کامیاب کوشش کی۔ اللہ کا شکر ہے اس کے ساتھ مٹن یا کٹن کا بھی انتظام تھا روٹی بھی مزیدار تھی۔ اس لئے جہاز کی ساری کسر یہاں نکالی۔
امحد صاحب، عمادالدین اور حافظ صاحب
نارووال کی علم دوست شخصیت درمیاں میں
جناب سعید الحسن صاحب
مکمل تعارف انشاءاللہ آگے آ رہا ہے
پاکستانی ریستوران میں، پاکستانی جھنڈے۔۔پاکستانی جھنڈا کسی غیر ملک میں نظر آئے تو عجیب سی خوشی ہوتی ہے۔